Orhan

Add To collaction

تیری اواز

تری آواز میں بھی کوئی آوازہ نہیں ہوتا
تری باتوں سے اب تو کوئی اندازہ نہیں ہوتا

کبھی بیٹھک تری دوپہر میں آباد رہتی تھی
کھلا اب شام کو بھی گھر کا دروازہ نہیں ہوتا

کبھی وہ اک اشارے سے سمجھ جاتا تھا ساری بات
جتن کرنے سے بھی اب اس کو اندازہ نہیں ہوتا

بہت ہی بن سنور کر آج کل گھر سے نکلتا ہے
مگر یہ کیا کہ وہ چہرہ تر و تازہ نہیں ہوتا

کبھی دکھ آ کے رہتے ہیں کبھی سکھ آ کے رہتے ہیں
کسی پر بند اپنے گھر کا دروازہ نہیں ہوتا

مرے بارے میں وہ کیا سوچتا ہے موڈ کیسا ہے
اب اس سے شام کو بھی مل کے اندازہ نہیں ہوتا



افتخار قیصر

   0
0 Comments