تیری اواز
تری آواز میں بھی کوئی آوازہ نہیں ہوتا
تری باتوں سے اب تو کوئی اندازہ نہیں ہوتا
کبھی بیٹھک تری دوپہر میں آباد رہتی تھی
کھلا اب شام کو بھی گھر کا دروازہ نہیں ہوتا
کبھی وہ اک اشارے سے سمجھ جاتا تھا ساری بات
جتن کرنے سے بھی اب اس کو اندازہ نہیں ہوتا
بہت ہی بن سنور کر آج کل گھر سے نکلتا ہے
مگر یہ کیا کہ وہ چہرہ تر و تازہ نہیں ہوتا
کبھی دکھ آ کے رہتے ہیں کبھی سکھ آ کے رہتے ہیں
کسی پر بند اپنے گھر کا دروازہ نہیں ہوتا
مرے بارے میں وہ کیا سوچتا ہے موڈ کیسا ہے
اب اس سے شام کو بھی مل کے اندازہ نہیں ہوتا
افتخار قیصر